Why did General Mir Jafar of Bengal leave with Siraj-ud-Daulah?

Why did General Mir Jafar of Bengal leave with Siraj-ud-Daulah?

دنیا بھر میں سیاسی رہنما خود کو ہیرو یا اپنے حریف کو ولن ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا سہارا لیتے آئے ہیں۔ اگرچہ ایسا کرتے ہوئے کئی مرتبہ تاریخ مسخ بھی ہوجاتی ہے لیکن سیاسی بیانات میں تاریخ کے حوالے بار بار آنے سے ماضی کے کرداروں کو سمجھنے اور ان کی صورت گری کرنے والے تاریخی اسباب جاننے کا موقع بھی ملتا ہے۔

گزشتہ کئی دنوں سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان بار بار بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر کی بے وفائی کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ عمران خان کے سیاسی حریف ان بیانات کو فوجی قیادت کی جانب اشارہ قرار دیتے ہیں۔ البتہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریف شریف برادران کا ان تاریخی کرداروں سے موازنہ کر رہے ہیں۔

حالیہ سیاسی بیانات میں زیرِ بحث آنے والے سراج الدولہ، میر جعفر کے کردار اس دور میں سامنے آئے تھے جب ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ آنے والا تھا۔

ہندوستان کے بدلتے حالات

سراج الدولہ نے 1756 میں اپنے نانا اور اس وقت کے بنگال، بہار اور اڑیسہ کے علاقوں پر مشتمل مغل سلطنت کے صوبے کے سربراہ علی وردی خان کی جگہ نواب ناظم کا منصب سنبھالا تھا۔ اس وقت سراج الدولہ کی عمر 27 برس تھی۔

علی وردی خان کے دور میں بنگال ایک خود مختار صوبے کی صورت اختیار کرگیا تھا۔اس سے قبل بنگال کے حاکم کا تقرر دہلی کا مغل شہنشاہ کیا کر تا تھا۔ لیکن 1707 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد ان کی جانشینی کے لیے شہزادوں میں ہونے والی باہمی جنگوں کے بعد صوبے مرکزی حکومت کے اثر سے نکلنا شروع ہوگئے تھے۔

کئی علاقوں میں خود مختاری کے لیے کوشاں بااثر منصب دار بھی مغل شہزادوں کے تخت کے لیے تگ و دو کا حصہ بن چکے تھے اور اس کھیل نے صوبائی گورنروں اور درباری دھڑوں کو مزید مضبوط کردیا تھا۔

اسی لیے مالی اور جغرافیائی اعتبار سے جو صوبہ جتنا اہم ہوتا، اس کی گورنری کو بھی اتنی ہی اہمیت دی جاتی تھی۔ اسی بنا پر مغل سلطنت میں بنگال کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔

بنگال کی اہمیت

دولاکھ 17 ہزار مربع میل پر پھیلے مغل سلطنت کے بنگال صوبے میں اس وقت بہار اور اڑیسہ کے علاقے بھی شامل تھے۔ یہ خطہ جغرافیائی اور تجارتی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ علاقہ شمال میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور جنوب میں خلیجِ بنگال کے توسط سے بحرِ ہند سے جڑا ہوا تھا۔

گنگا اور برہما پتر سمیت کئی چھوٹے بڑے دریاؤں کی وجہ سے اس علاقے کی زمین بہت زرخیز تھی۔ چاول اور گنے کے علاوہ یہاں کپاس کی پیداوار بھی تھی جس کی وجہ سے اس خطے میں کپڑا بنانے کی صنعت عروج پر تھی۔ زرعی اور صنعتی مرکز ہونے کے سبب یہ خطہ بہت خوش حال تھا اور اس کے وسائل کی وجہ سے مغلوں کے لیے اس کی ہمیشہ اہمیت رہی تھی۔

اورنگزیب نے 1697 میں اپنے پوتے اور شاہ عالم اول کے بیٹے شہزادہ عظیم الشان کو بنگال کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ساتھ ہی اپنے ایک درباری معتمد میر قلی خان کو اس صوبے میں دیوان بھی مقرر کیا تھا جنہیں بعد میں مرشد قلی خان کا خطاب ملا۔

دیوان مغل صوبوں کے مالی معاملات کے نگران ہوا کرتے تھے۔ 1719 میں محمد شاہ مغل سلطنت کے فرماں روا بنے تو مرشد قلی خان کو بنگال کا گورنر بنا دیا گیا اورانہیں صوبائی دارالحکومت مخصوص آباد کا نام تبدیل کرکے مرشدآباد رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ یہیں سے بنگال نے ایک خود مختار صوبے کی حیثیت حاصل کرنا شروع کی۔

بنگال میں اقتدار کی کشمکش

تخت نشینی کے جھگڑوں اور مرہٹوں کی مزاحمت کے بعد مغلوں کی مرکزی حکومت اپنی کمزور ہوتی فوجی قوت کے باعث اس بات پر بھی خوش تھی کہ صوبے برائے نام ہی اس سے وفاداری کا دم بھرتے رہیں اور ہر سال قیمتی نذرانے دہلی پہنچاتے رہیں۔

اس حکمتِ عملی کے تحت مرکزی حکومت نے انتطامی فیصلے اور اختیار بنگال، دکن اور کرناٹک جیسے صوبوں کے گورنروں کے حوالے کردیے تھے جنہیں ‘نواب ناظم’ کہا جانے لگا تھا۔

عام طور پر صوبوں کے گورنر بادشاہ مقرر کرتا تھا۔ لیکن ان صوبوں میں جہاں کے گورنر بڑی حد تک خود مختار ہو چکے تھے، اپنے جانشین بھی خود ہی مقرر کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے مرشد قلی خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے نواسے سرفراز خان کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا اور یہیں سے بنگال میں اقتدار کے لیے محلاتی سازشوں آغاز ہوا۔

سن 1727 میں مرشد قلی خان کا انتقال ہوا تو ان کے خاندان میں اقتدار کی کشمکش شروع ہوگئی۔ پہلے ان کے داماد شجاع الدین ان کے مقرر کردہ ولی عہد اور اپنے ہی بیٹے سرفراز خان کی جگہ نواب بن گئے۔پھر 1739 میں شجاع الدین کی موت کے بعد بالآخر سرفراز خان بنگال کے حکمران بنے۔ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان بھی اسی دور میں بنگال کے دربار میں ایک بااثر شخصیت بن چکے تھے۔

سرفراز خان ایک نااہل حکمران ثابت ہوئے اور 1740 میں علی وردی خان نے ان کا تختہ الٹ کر اقتدار سنبھال لیا۔ علی وردی خان کے بعد بنگال سیاسی طور پر آزاد ہو گیا اور انہوں ںے مغلوں کو سالانہ بھاری نذارنے بھجوانا بھی بند کردیے۔

اقتدار کے نئے حصے دار

سولہویں صدی کے آغاز میں نئے نئے بحری راستوں کی دریافت زور پکڑ گئی تھی۔ ساتھ ہی یورپی قوتوں میں بین الاقوامی بحری گزر گاہوں پر زیادہ سے زیادہ اختیار اور عالمی تجارت میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی دوڑ بھی شروع ہوچکی تھی۔ علی وردی خان نے جب اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک بنگال برِصغیر میں یورپی نوآبادیاتی قوتوں کی اس مسابقت کا میدان بن چکا تھا۔

ہندوستان کے مغربی ساحل پر پرتگالی گوا میں قدم جمانے کے بعد 1578 میں شہنشاہ اکبر کی اجازت سے اپنی تجارت کا دائرہ بنگال میں دریائے ہوگلی تک پھیلا چکے تھے۔ 1600 میں قائم ہونے والی برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی 1612 تک گجرات کی بندرگاہ سورت کے علاقے میں تجارتی مرکز بنا چکی تھی اور شاہ جہاں کے دربار سے اجازت نامے ملنے کے بعد کمپنی نے بھی مسولی پٹم اور مدراس کے بعد 1651 میں ہوگلی میں بھی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا۔

یورپی مارکیٹ میں بنگال کے کپڑے کی مانگ بڑھنے کی وجہ سے ولندیزی(ڈچ) اور فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنیاں بھی بنگال کا رُخ کررہی تھیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی اورنگزیب کے پوتے اور بنگال کے حاکم شہزداہ عظیم کے دور میں کلکتہ میں فورٹ ولیم بنانے کی اجازت بھی حاصل کرچکی تھی اور بعد میں یہ قلعہ ایک درس گاہ بنا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور دیگر یورپی سوداگر اب صرف تجارت ہی میں ایک دوسرے سے مسابقت نہیں کررہے تھے بلکہ قلعہ بندیوں کے بعد ان میں فوجی قوت بڑھانے کی دوڑ بھی شروع ہوچکی تھی اور انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومت میں اپنا رسوخ استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔

ہندوستان کی سیاست میں یورپ کی مداخلت

یورپ میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان جاری چپقلش کےاثرات ہندوستان بھی پہنچ گئے تھے۔ اور جنوبی ہندوستان میں فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے اہل کاروں اور فوج ںے برطانوی تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا۔

ان جھڑپوں میں کرناٹک کے گورنر نے فرانس کے مقابلے کے لیے برطانیہ کی حمایت میں اپنی فوج اتاری لیکن اسے پسپا ہونا پڑا۔ 1748 تک اگرچہ بھارت میں فرانس اور برطانیہ کے تعلقات معمول پر آگئے تھے لیکن کرناٹک کے تجربے کے بعد فرانس اور برطانیہ نے ہندوستان کی اندرونی سیاسی دھڑے بندیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔

حیدرآباد بھی اس وقت ایک آزاد حیثیت اختیار کرچکا تھا اور وہاں نظام الملک کے بیٹے ناصر جنگ اور پوتے مظفر جنگ میں اقتدار کے لیے لڑائی زور پکڑ گئی تھی۔ فرانس نے حکمرانی کی اس کشمکش میں اپنی مرضی کے حاکم لانے کی کوشش کی تو اس کے دیکھا دیکھی برطانیہ نے بھی کرناٹک میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ اس دوران فرانس اور برطانیہ بنگال میں آنے والی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے۔

علی وردی کی جانشینی

علی وردی خان بنگال کی حکمرانی کو اپنے خاندان میں رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس لیے انہوں نے اپنی موت سے تین برس قبل ہی اپنی چھوٹی بیٹی کے فرزند اور اپنے نواسے مرزا محمد کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔

یہی مرزا محمد ہیں جنہیں اپنے خطاب ‘سراج الدولہ’ سے شہرت حاصل ہوئی۔ علی وردی خان کی دیگر بیٹیوں اور ان کی اولاد کی جانب سے اس فیصلے کی مخالفت فطری تھی۔اس مخالفت کے پیشِ نظر علی وردی خان نے اپنی زندگی ہی میں اپنے دربار کے تین سب سے وفادار اور طاقت ور افراد کو سراج الدولہ کی مدد کرنے پر مامور کردیا تھا۔

ان تین بااثر عہدے داروں میں سب سے پہلے بنگال کی فوج کے کمانڈر ان چیف میر جعفر تھے۔ وہ علی وردی خان کے قابلِ اعتماد ساتھی اور ان کی سوتیلی بہن کے شوہر بھی تھے۔ علی وردی خان نے اپنے وزیرِ اعظم درلبھ رائے اور دربار سے وابستہ سرمایہ دار اور وزیرِ خزانہ جگت سیٹھ سے بھی اپنے جانشین سراج الدولہ کی وفاداری کا عہد لے لیا تھا۔

سراج الدولہ کو جانشین مقرر کرنے پر علی وردی خان کی بڑی بیٹی گھسیٹی بیگم اور دیگر بیٹیوں اور ان کی اولاد نے کھل کر مخالفت کی۔ علی وردی خان نے سراج الدولہ کے تخت کے ان دعوے داروں کے ساتھ مفاہمت کی کوشش بھی کی لیکن انہیں ناکامی ہوئی۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سراج الدولہ نے ایک ایک کرکے اپنے سارے مخالفین کو پسپا کردیا۔ علی وردی خان کے تینوں وفادار ساتھی ان کوششوں میں سراج الدولہ کے ساتھ رہے۔ لیکن بعد میں حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ انہی تینوں وفاداروں نے سراج الدولہ کو اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا جس میں مرکزی کردار میر جعفر نے ادا کیا۔

سراج الدولہ کے نانا کی پیش گوئی

پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا کے بیٹے اور اس تاریخ کےاہم کردار میر جعفر کے خاندان کے فرد مرزا ہمایوں اپنی کتاب ‘پلاسی ٹو پاکستان’ میں اس دور کے مؤرخین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ بہت جذباتی اور غیر مستقل مزاج شخصیت تھے۔

سراج الدولہ کے اپنے عزیز اور مؤرخ غلام حسین خان کا یہ بیان بھی تاریخی کتب میں موجود ہے کہ پل میں تولا، پل میں ماشہ ان کی شخصیت کی وجہ سے لوگ بہت جلد ان سے فاصلہ اختیار کررہے تھے۔

علی وردی خان کو بھی اپنے نوجوان نواسے کی شخصیت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ لیکن اب ان کے پاس اپنا فیصلہ تبدیل کرنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ 10 اپریل 1756 کو 82 برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن اپنی موت سے چند روز قبل ہی انہوں نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ ان کی موت کے بعد جب سراج الدولہ بنگال کا حکمران بنے گا تو ہندوستان کے ساحلوں پر ہیٹ والوں (یعنی یورپیوں) کی حکومت قائم ہوجائے گی۔

سراج الدولہ کی حمایت میں کمی

ہمایوں مرزا کے مطابق سراج الدولہ نے کم عمری میں نواب ناظم کا عہدہ سنبھالا تو انہیں سب سے پہلے جانشینی کے لیے اپنے ہی رشتے داروں سے مقابلہ کرنا پڑا تھا۔ اس وجہ سے ان کے مزاج میں بہت زیادہ سختی آگئی تھی۔ انہیں میر جعفر، جگت سیٹھ اور رائے درلبھ جیسے اپنے نانا کے وفادار ساتھیوں کی پوری حمایت تو حاصل تھی لیکن نانا کی موت کے بعد وہ اقتدار سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہوگئے تھے اور اپنے وفاداروں ہی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے تھے۔

جنگ پلاسی سے متعلق 1975 میں بھارت سے شائع ہونے والی ڈی سی ورما کی کتاب ‘پلاسی ٹو بکسر’ میں لکھا ہے کہ سراج الدولہ اڑیسہ میں اپنے خالہ زاد شوکت جنگ کی بغاوت کچلنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ لیکن انہیں شک تھا کہ اس بغاوت کے لیے سرمایہ ان کے وزیرِ خزانہ جگت سیٹھ نے فراہم کیا تھا۔ اس لیے سراج الدولہ نے بھرے دربار میں جگت سیٹھ کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا تھا۔

اس رویے کی وجہ سے سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان کے دور کے درباریوں کو مسلسل اپنی معزولی اور جان کا خوف پیداہوگیا تھا۔ ان خدشات نے ایسا ماحول پیدا کردیا تھا جو محلاتی سازشوں کے لیے ساز گار ہوتا ہے۔

جگت سیٹھ کو اپنی جان کے ساتھ ساتھ سرمائے کی بھی فکر تھی۔ اس لیے انہوں نے سراج الدولہ کا تختہ الٹنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی۔ اس منصوبے میں کامیابی کے لیے جگت سیٹھ کو انگریزوں کا ساتھ درکار تھا۔ لیکن وہ کسی موقعے کی تلاش میں تھے کہ سراج الدولہ نے خود ہی یہ موقع فراہم کردیا۔

کلکتہ پر پہلا حملہ

سراج الدولہ نے اگرچہ اقتدار کی جنگ میں اپنی ایک بڑی حریف اور خالہ گھسیٹی بیگم کو حراست میں لے لیا تھا لیکن وہ ان کے ساتھیوں کاصفایا بھی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی خالہ کی حمایت کرنے والے ایک مال دار شخص راج بلبا کو گرفتار کرنا چاہا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کا خاندان کلکتہ میں انگریزوں کی پناہ میں ہے۔ یہی خبر نواب کے غیض و غضب کو دعوت دینے کے لیے کیا کم تھی کہ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کلکتہ میں انگریزوں نے نواب ناظم کی اجازت کے بغیر قلعوں کی تعمیرشروع کر رکھی ہے۔

کتاب ‘پلاسی ٹو پاکستان’ کے مطابق ابتدا میں نواب نے یہ معاملہ سفارت کاری سے حل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن نواب کے ایلچی کے ساتھ انگریز گورنر راجر ڈریک کے توہین آمیز سلوک نے نواب کے ضبط کا بندھن توڑ دیا۔ جون 1756 میں سراج الدولہ نے پہلے قاسم بازار پر قائم انگریزوں کی تجارتی چوکی پر قبضہ کرلیا اور پھر 16 جون کو کلکتہ پر ہی حملہ کردیا۔ برطانوی تاریخ میں اس حملے کو ‘بلیک ہول آف کولکٹا’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کلکتہ میں انگریزوں کی فوجی بیرکس میں زیادہ شراب پی کر دھت ہونے والے یا ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں کو جن کوٹھڑیوں میں قید کیا جاتا تھا انہیں ‘بلیک ہول’ کا نام دیا گیا تھا۔ کلکتہ پر قبضہ کرکے سراج الدولہ نے کئی برطانویوں کو انہی تنگ و تاریک قید خانوں میں ڈال دیا تھا۔

بلیک ہول واقعے میں سراج الدولہ پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ انہوں نے چھوٹے سے سیل میں 146 انگریز اہل کاروں اور ان کے اہل خانہ کو بند کردیا تھا جہاں دم گھٹنے کی وجہ سے 123 افراد کی موت واقع ہوگئی تھی۔ ‘پاکستان ٹو پلاسی’ کے مصنف ہمایوں مرزا کے مطابق بعد کے مؤرخین نے اس تعداد کا مبالغہ آرائی قرار دیا ہے۔

ان کے نزدیک صرف 39 سے 69 کے درمیان لوگوں کو ان کوٹھڑیوں میں قید کیا گیا تھا جس کے باعث 18 سے 46 افراد کی موت ہوئی تھی۔ ہمایوں مرزا کے مطابق انگریز بنیادی طور پر کلکتہ میں اپنی شکست پر بہت برہم تھے۔ اس لیے انہوں ںے بلیک ہول واقعے میں ہونے والی اموات کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا۔

انگریزوں کے خلاف فوج کشی سے پہلے سراج الدولہ نے فرانس اور ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنیوں سے مدد طلب کی تھی۔ لیکن دونوں ںے انکار کر دیا تھا۔ اسی لیے کلکتہ میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ نے فرانسیسی اور ڈچ سوداگروں سے بھی بھاری ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا تھا۔

زوال کا آغاز

کلکتہ کی مہم میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ خود کو ایک مضبوط حکمران سمجھ رہے تھے۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے انتقام کی تیاریاں شروع کردی تھیں کیوں کہ انہیں بنگال میں اپنے تجارتی مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے تھے اور اپنے حریف فرانس کی خطے میں موجودگی کی وجہ سے وہ بنگال سے پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔

اسی لیے ایسٹ انڈیا کمپنی نے مدراس میں اپنی قوت جمع کرنا شروع کی اور جولائی 1756 میں کلکتہ میں اپنی تنصیبات بحال کرنے کے لیے مہم کا آغاز کردیا۔ دسمبر 1756 تک ایسٹ انڈیا کمپنی کی تیار کی گئی فوج کے برطانوی کمانڈرلارڈ کلائیو ایک بڑی فوج لے کر بنگال پہنچ چکے تھے اور انہوں ںے سراج الدولہ کو اپنے مطالبات سے آگاہ کردیا تھا۔

سراج الدولہ نے شروع میں بات چیت سے انکار کیا تو کمانڈر لارڈ کلائیو نے کلکتہ پر قبضہ کرلیا اور جنوری 1757 تک وہ ہوگلی میں ہندوستانی قلعوں تک پہنچ گئے۔

اسی اثنا میں یہ خبر ہندوستان پہنچی کہ یورپ میں فرانس اور برطانیہ میں جنگ جاری ہے۔ یہ 1756 میں شروع ہونے والی ’سات سالہ جنگ‘ تھی جو 1763 تک جاری رہی۔ یہ خبر ملتے ہی لارڈ کلائیو کو اندازہ ہوگیا تھا کہ اب فرانس جنوب میں پونڈی چری اور چندرنا گور کے علاقوں میں اپنی پوری قوت سے سراج الدولہ کی مدد کر سکتا ہے۔

اس موقع پر سراج الدولہ سے انگریزوں کی فوجی قوت کا درست اندازہ لگانے میں غلطی ہوئی تھی۔ وہیں انہیں افغان حکمران احمد شاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملے کی خبریں موصول ہورہی تھیں اوریہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ منافع بخش تجارت کی وجہ سے بنگال بھی ان حملوں کا نشانہ بنے گا۔

ایسے حالات میں نواب نے سب سے پہلے برطانوی خطرے سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور کلکتہ کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ کلکتہ کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سراج الدولہ نے فرانس سے بھی مدد مانگی لیکن فرانسیسی اس سے قبل کلکتہ میں کامیابی کے بعد سراج الدولہ کا رویہ دیکھ چکے تھے۔ اس لیے انہوں ںے فوری مدد سے گریز کیا۔

کامیابی کے بعد ناکامی

سراج الدولہ کی فوج کلکتہ پہنچی تو لڑائی سے قبل مذاکرات کیے گئے۔ انگریز بنگال میں نواب کے ہاتھوں ہونے والے اپنے نقصانات کے ازالے کے ساتھ ساتھ کلکتہ میں قلعے بنانے اور اپنے سکوں کی ڈھلائی کے لیے ٹکسال لگانے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کررہے تھے۔ مذاکرات کے باجود لارڈ کلائیو نواب پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور انہیں سراج الدولہ کی عددی برتری کا اندازہ بھی تھا۔

لارڈ کلائیو کو معلوم ہوچکا تھا کہ سراج الدولہ کے ساتھ 40 ہزار کی فوج ہے۔ انگریزوں کے پاس 470 فوجی اور 1400 ملاح اور ہندوستانی سپاہی تھے۔ میدانِ جنگ میں اس افرادی برتری کا مقابلہ ممکن نہیں تھا۔ اس لیے لارڈ کلائیو نے 5 فروری 1757 کو خیمے پر حملہ کرکے سراج الدولہ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جو ناکام رہا۔ سراج الدولہ محفوظ رہے اور انگریزوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

ہمایوں مرزا لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ نے کبھی کسی جنگ میں براہِ راست فوج کی کمان نہیں کی تھی۔ وہ اپنے تجربے کار کمانڈروں کی مدد سے ہی کامیاب ہوتے رہے تھے۔ اسی ناتجربے کاری کی وجہ سے انگریزوں کے شب خون میں محفوظ رہنے کے باجود وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور انہوں نے لارڈ کلائیو کو پیغام بھیجا کہ وہ انگریزوں کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس پیش کش کے بعد 9 فروری 1757 کو سراج الدولہ اور انگریزوں میں معاہدہ طے پاگیا جس کے بعد انگریزوں کو کلکتہ میں قلعے تعمیر کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ مؤرخین کے مطابق سراج الدولہ نے کلکتہ میں بغیر اجازت قلعے بنانے پر سزا دینے کے لیے ہی انگریزوں پر چڑھائی کی تھی۔ لیکن بعد میں انہوں نے انگریزوں کا یہی مطالبہ تسلیم کر لیا۔

مؤرخین کے مطابق سراج الدولہ کو دربار کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی تو یہ فیصلہ نہ ہوتا۔ لیکن وہ پہلے ہی بنگال میں بااثر طبقے کو شدید برہم کرچکے تھے اور انہیں بنگال میں اپنی حکومت کے کمزور ہونے کا اندازہ تھا۔ تبھی انہوں نے انگریزوں کے ساتھ مفاہمت میں ہی عافیت جانی تھی۔

انگریزوں سے سمجھوتے کے بعد سراج الدولہ اپنے درباریوں کی نظر میں مزید کمزور ہوگئے تھے۔ اس لیے ان کے خلاف درباری سازشیں زور پکڑ گئیں۔ اس وقت تک انگریز بھی سمجھ چکے تھے کہ بنگال کے تخت پر اپنی مرضی کا فرماں روا لائے بغیر وہ زیادہ دیر تک اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرپائیں گے۔ اس لیے انہوں نے سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر کو ساتھ ملا کر حکومت گرانے کے منصوبے کو حتمی شکل دینا شروع کردی۔

بنگال کے کمانڈر ان چیف میر جعفر

میر جعفر نجف کے گورنر سید حسین نجفی کے پوتے تھے اور ان کا تعلق سادات گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اورنگزیب کے زمانے میں ہندوستان آئے تھے اور مغل دربار کا حصہ بنے تھے۔

میر جعفر 1734 میں بنگال کے دربار سے وابستہ ہوئے تھے اور 1740 میں انہوں ںے اقتدار حاصل کرنے میں اپنے برادرِ نسبتی علی وردی خان کی مدد کی تھی۔ 1746 میں مرہٹوں کی مزاحمت کچلنے میں بھی میر جعفر نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1748 میں اڑیسہ میں ہونے والی شورش بھی میر جعفر نے ہی ختم کی تھی۔

اس کے بعد سے میر جعفر مسلسل علی وردی کے عہد میں فوج کے سپہ سالار رہے۔ جنگوں میں اپنی کامیابی کی وجہ سے میر جعفر کو فوج میں بہت احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی لیے جب علی وردی خان نے اپنی جانشینی کا فیصلہ کیا تو میر جعفر سے قرآن پر حلف لیا کہ وہ ان کے جانشین سراج الدولہ کی بنگال، بہار اور اڑیسہ پر حکمرانی قائم کرنے میں مدد کریں گے۔

جیسا پہلے بیان ہوچکا کہ سراج الدولہ نے اپنے نانا کے دور کے طاقت ور افراد کو ایک ایک کرکے عہدوں سے ہٹانا شروع کیا تو اس کی زد میں میر جعفر بھی آئے۔ لیکن جب سراج الدولہ نے 1756 میں انگریزوں سے لڑائی شروع کی تو جنگی تجربے کی وجہ سے میر جعفر کو دوبارہ فوج کا کمانڈر بنا دیا۔

میر جعفر نے سراج الدولہ کے خالہ زاد بھائی شوکت جنگ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی میں اہم کردار ضرور ادا کیا تھا۔ لیکن وہ سراج الدولہ کے مزاج سے خائف تھے۔ وہ دربار میں پرانے عہدے داروں کی تذلیل کے کئی مناظر دیکھ چکے تھے۔ انگریزوں کے ساتھ سراج الدولہ کے سمجھوتے کے بعد میر جعفر کا اندازہ بھی یہی تھا کہ اقتدار پر نواب کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔

ایک طرف فرانس اور دوسری جانب برطانیہ

یورپ میں بڑھتی ہوئی باہمی مسابقت کی وجہ سے برطانیہ مکمل طور پر فرانس کو بنگال سے نکالنا چاہتا تھا۔ لیکن سراج الدولہ فرانسیسیوں کو اس لیے بنگال میں رکھنا چاہتے تھے کہ وقت پڑنے پر انگریزوں کے خلاف ان سے مدد لی جاسکے۔ لیکن دوسری طرف انہیں مرہٹوں اوراحمد شاہ ابدالی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے برطانیہ کی مدد کی ضرورت بھی تھی۔

اس لیے سراج الدولہ مسلسل ٹال مٹول سے کام لے رہے تھے۔ لیکن برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی فرانس کو بنگال سے نکالنے کا تہیہ کرچکی تھی۔

سراج الدولہ برطانیہ اور فرانس کی اس کشمکش میں غیر جانب داری کا تاثر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ انگریز فوج کو مارچ 1757 میں چندرناگور کے فرانسیسی قلعے پر چڑھائی سے نہیں روک سکے۔ اس مہم میں کامیابی کے بعد لارڈ کلائیو نے سراج الدولہ سے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ وہ پورے بنگال سے فرانسیسوں کو نکال باہر کریں۔

سراج الدولہ نے پھر ٹال مٹول کی لیکن لارڈ کلائیو مصر رہے اور آخر کار برطانیہ نے فیصلہ کیا کہ بنگال میں نواب کی تبدیلی کے بغیر فرانس کو بنگال سے بے دخل کرنا ممکن نہیں رہا۔

میر جعفر ہی کیوں؟

کتاب ‘پلاسی ٹو پاکستان’ کے مصنف کے مطابق لارڈ کلائیو چاہتے تھے کہ بنگال کا حکمران کوئی ایسا شخص بنے جسے دربار اور فوج میں احترام بھی حاصل ہو اور وہ انگریزوں کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتا ہو۔

ڈی سی ورما کی کتاب ‘پلاسی ٹو بکسر’ کے مطابق کلکتہ کے فورٹ ولیم میں بنگال کے نئے حکمران کے لیے جو مشاورت ہوئی اس میں میر جعفر کے نام پر اتفاق ہوا۔ اس کے علاوہ بنگال کے ایک بارسوخ سرمایہ دار اور سراج الدولہ کے سابق وزیرِ خزانہ جگت سیٹھ نے بھی حکمرانی کے لیے میر جعفر کا نام تجویز کیا تھا۔

ڈی سی ورما کے مطابق انگریزوں کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ سراج الدولہ اپنے دربار میں غیر مقبول ہوچکے ہیں اور کئی اہم لوگ انہیں منصب سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس لیے اگر انگریز حکومت تبدیل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں تو نئی حکومت سے اپنے مطالبات منوانا بھی آسان ہوگا اور ان سے خوب انعام و اکرام بھی حاصل ہوگا۔

خفیہ ملاقاتوں کا آغاز

لارڈ کلائیو نے اس منصوبے کے لیے سراج الدولہ کے کمانڈر انچیف میر جعفر سے ایک تحریری معاہدے کا مسودہ بھی تیار کرلیا تھا۔ دارالحکومت مرشد آباد میں لارڈ کلائیو کی جانب سے ایسٹ انڈیا کمپنی کےایک نمائندے مسٹر واٹس میر جعفر سے خفیہ مذاکرات شروع کرچکے تھے۔

ان مذاکرات میں میر جعفر نے حکومت میں آنے کے بعد بنگال سے تمام فرانسیسی کمپنیوں کے خاتمے کا مطالبہ تسلیم کرلیا تھا۔ میر جعفر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو سراج الدولہ سے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے ایک کروڑ روپے کی ادائیگی، فورٹ ولیم میں بنگال کی حکمرانی کے لیے میر جعفر کا نام تجویز کرنے والی کمیٹی کے ہر رکن کو 12 لاکھ روپے اور برطانوی فوج کو 40 لاکھ روپے دینے کی شرط بھی تسلیم کرلی تھی۔

معاہدے میں یہ بھی طے پایا کہ میر جعفر نواب بنتے ہی بنگال میں تمام فرانسیسی کارخانے اور املاک برطانیہ کے حوالے کردیں گے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کو کلکتہ میں زمین داری کے لیے اراضی خریدنے کی اجازت بھی دیں گے اور جو برطانوی فوجی نواب کی حفاظت کریں گے ان کا معاوضہ بھی نواب کے ذمے ہوگا۔

سپہ سالار کی غیر جانب داری

میر جعفرانگریزوں سے معاہدے پر رضا مند تو ہوگئے تھے لیکن انہیں ابھی بھی لارڈ کلائیو پر پوری طرح اعتبار نہیں تھا۔ اس لیے وہ معاہدے پر دستخط سے پہلے پس و پیش کا شکار تھے۔

ڈی سی ورما کی کتاب ‘پلاسی ٹو بکسر’ اور ہمایوں مرزا کی کتاب ‘پلاسی ٹو پاکستان’ کے مطابق انگریز نمائندے واٹس نے لارڈ کلائیو کو میر جعفر سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں تین جون 1757 کو جو رپورٹ ارسال کی اس میں بتایا گیا تھا کہ اب تک کی بات چیت سے ہم یہی توقع کرسکتے ہیں کہ سراج الدولہ سے جنگ کی صورت میں کمانڈر انچیف میر جعفر اور ان کے ساتھی غیر جانب دار رہیں گے۔

مسٹر واٹس نے اس کی یہ وضاحت بھی کی تھی کہ میر جعفر اس بات کے لیے رضا مند ہیں کہ اگر برطانیہ نواب کے خلاف کامیاب ہوا تو یہ اس کامیابی میں حصے دار ہوں گے اور ناکامی ہوئی تو یہ ظاہر کریں گے ان کا ایسٹ انڈیا کمپنی سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔

سراج الدولہ کو سازش کا علم ہوگیا

سراج الدولہ کو اپنے اور فرانس کے جاسوسوں کے ذریعے انگریزوں اور میر جعفر کے درمیان جاری بات چیت کا علم ہوگیا تھا۔ اس لیے نواب نے میر جعفر کو معزول کرکے گرفتار کرنے کے لیے اپنے اہل کار روانہ کردیے۔

میر جعفر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے خود کو اپنے گھر میں محصور کرلیا اور ان کے سپاہیوں ںے نواب کے اہلکاروں کو مار پیٹ کر واپس بھیج دیا۔

یہ سراج الدولہ کے لیے بڑا دھچکہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ہی دارالحکومت میں اب کسی حکومتی اہل کار کو گرفتار بھی نہیں کرسکتے تھے۔

سراج الدولہ کو سازش کا علم ہونے کے بعد میر جعفر نے مرشد آباد میں انگریز نمائندے مسٹر واٹس کو پیغام بھیجا کہ وہ معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہیں۔

پانچ جون 1757 کو واٹس نے لارڈ کلائیو کا تیار کردہ معاہدے کا مسودہ خفیہ طور پر میر جعفر کی رہائش گاہ پر پہنچایا جس پر انہوں نے دستخط کردیے۔ 12 جون 1757 کو واٹس اور دیگر انگریز خاموشی کے ساتھ مرشد آباد سے فرار ہوگئے جس کے بعد سراج الدولہ کو یقین ہوگیا کہ اب انگریز جنگ سے نہیں ٹلیں گے۔

سراج الدولہ کو یہ اطلاعات بھی موصول ہورہی تھیں کہ ہوگلی سے انگریز فوج مرشد آباد کی جانب روانہ ہوچکی ہے۔

ہمایوں مرزا کے مطابق گرفتاری میں ناکامی کے بعد سراج الدولہ نے میر جعفر اور درلبھ رائے کو معطل کردیا تھا۔ لیکن انگریزوں کی پیش قدمی کی وجہ سے اس نے ایک بار پھرانہیں مفاہمت کا پیغام بھیجا۔

ڈی سی ورما اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سراج الدولہ نے اپنے کمانڈر میر میدان کے اصرار کے باجود ایک بار پھر میر جعفر کو فوج میں شامل کرلیا۔ میر جعفر نے قرآن پر عہد کیا کہ وہ نواب کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ یہ یقین دہانی ہونے کے بعد سراج الدولہ نے انگریزوں سے مقابلے کے لیے اپنی فوج مرشد آباد سے 23 میل جنوب میں پلاسی کے مقام پر جمع کرنا شروع کردی۔

سراج الدولہ کی فوج میں اس وقت 15 ہزار سوار، 35 سو پیدل فوجی اور فرانسیسوں سے حاصل کی گئی 40 توپیں بھی شامل تھیں۔ جب کہ مختلف دعوؤں کے مطابق لارڈ کلائیو کی سربراہی میں مرشدآباد کے لیے آنے والی فوج میں 2100 ہندوستانی اور 800 یورپی فوجی اور توپ خانہ شامل تھا۔

ہوگلی سے نکلنے کے بعد راستے میں لارڈ کلائیو قاسم بازار اور کٹوا کے قلعے میر جعفر سے ہونے والی ساز باز کے مطابق بغیر کسی مزاحمت کو فتح کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔

میر جعفر نے اس دوران لارڈ کلائیو کو پلاسی پہنچنے سے چار پانچ دن پہلے ایک خط بھی بھجوایا جس میں بہت مبہم انداز میں یہ پیغام دیا گیا تھا کہ نواب سے مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے معاہدے سے پھر گئے ہیں۔

جنگِ پلاسی

لارڈ کلائیو کی سربراہی میں برطانوی فوج 22 جون کی شام پلاسی پہنچ چکی تھی۔ اگلے ہی دن 23 جون 1757 کو اس جنگ کا آغاز ہوا جسے’جنگِ پلاسی’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس نے ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت کی بنیاد رکھی۔

جنگ کے آغاز ہی میں سراج الدولہ نے توپ خانے کا استعمال کیا لیکن یہ توپ خانہ زیادہ دور تک مار نہیں کرسکتا تھا۔ اس لیے مخالف لشکر کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے علاوہ میدان میں ہونے والی چھوٹی موٹی جھڑپیں بھی بے نتیجہ رہیں۔

‘پلاسی ٹو بکسر’ کے مصنف کے مطابق اگلے روز ہونے والی شدید بارش نے جنگ کی کایا پلٹ دی۔ برطانوی توپ خانے کے اہل کاروں نے بارش شروع ہوتے ہی اسلحہ بارود ترپالوں سے ڈھانپ دیا تھا لیکن سراج الدولہ کی فوج کے پاس اپنے گولہ بارود کو برسات سے محفوظ بنانے کا انتظام ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کا توپ خانہ ناکارہ ہو گیا۔

برسات کچھ تھمی تو سراج الدولہ کی فوج نے پیش قدمی شروع کی۔ انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ بارش کی وجہ سے انگریزوں کا اسلحہ بارود بھی بھیگ کر ناکارہ ہوچکا ہے۔ لیکن وہ جیسے ہی آگے بڑھے تو لارڈ کلائیو کے توپ خانے نے آگ برسانا شروع کردی۔

اس بھاری گولہ باری سے سراج الدولہ کی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ میر جعفر سراج الدولہ کی فوج کے ایک تہائی حصے کے کمانڈر تھے جس میں گھڑ سواروں کے دستے بھی شامل تھے۔ لشکر کی پیدل صفوں کے قدم اکھڑنے کے بعد سراج الدولہ کو توقع تھی کی اب ان کے کمانڈر میر جعفر گھڑ سوار دستے میدان میں اتاریں گے۔ لیکن گولہ باری سے پیادہ فوج کی پسپائی کے بعد میر جعفر نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔

عین جنگ میں ایک تہائی فوج کے قدم پیچھے ہٹانے کی وجہ سے سراج الدولہ کی فوج بددل ہوگئی اور انگریز فوج نے اسے تین طرف سے گھیرلیا۔ اس حملے میں مختلف تاریخی حوالوں کے مطابق سراج الدولہ کی فوج کے 500 سے 1500 فوجی مارے گئے جب کہ انگریزوں کا جانی نقصان 100 سے بھی کم تھا۔

یہ صورتِ حال دیکھ کر سراج الدولہ میدانِ جنگ سے مرشد آباد فرار ہوگئے۔ لیکن کچھ دنوں بعد انہیں گرفتار کرکے قتل کردیا گیا اور میر جعفر کو باضابطہ طور پر بنگال، بہار اور اڑیسہ کا نواب بنانے کا اعلان کردیا گیا۔

ایسٹ انڈیاکمپنی کے اقتدار کا آغاز

سیکھر باندوپادھیائے کی کتاب ’پلاسی ٹو پارٹیشن‘ کے مطابق بنگال کی حکومت تبدیل ہونے کے بعد ہندوستان میں فرانس کی قوت کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اس کامیابی کے بعد سلطنتِ برطانیہ نے لارڈ کلائیو کو بنگال کا گورنر مقرر کردیا اور یوں ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی حکمرانی کا آغاز ہوا۔

ہمایوں مرزا لکھتے ہیں کہ پلاسی میں فتح کے بعد جب 29 جون 1757 کو میر جعفر کی باقاعدہ تاج پوشی کی رسم ہوئی تو لارڈ کلائیو بھی اس میں شریک تھے۔ رسمِ تاج پوشی میں میر جعفر مسند کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے تو لارڈ کلائیو نے آگے بڑھ کر انہیں بازو سے پکڑا اور تخت پر بٹھا دیا۔ یہ میر جعفر کے لیے اشارہ تھا کہ ان کا تاج و تخت لارڈ کلائیو کے ہی مرہونِ منت ہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کو انگریزوں کی مرضی کے احکامات دینے اور ان پر عمل درآمد کے لیے منصب پر بٹھایا تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب لارڈ کلائیو کو پتا چلا کہ میر جعفر نے ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ خفیہ تجارتی معاہدہ کر لیا ہے تو 1760 میں میر جعفر کو ان کے داماد میر قاسم کے حق میں دست بردار کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ لیکن کمپنی میر قاسم کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہیں چل سکی اور 1763 میں دوبارہ میر جعفر کو بحال کردیا۔ اس دوبارہ بحالی کے بعد میر جعفر 5فروری 1765 کو اپنی موت تک اس منصب پر فائز رہے۔

آج بھی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں میر جعفر کو غداری اور بے وفائی کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے مصنف ہمایوں مرزا میر جعفر کے اقدامات کو سراج الدولہ کی بے وفائی کا نتیجہ اور حالات کا جبر قرار دیتے ہیں۔

تصویر کریڈٹ: https://en.wikipedia.org/wiki/Siraj_ud-Daulah