ہانگ کانگ میں تین ممتاز جمہوریت پسند رہنما زیر حراست
ہانگ کانگ کے تین ممتاز جمہوریت پسند کارکنوں کو پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر کیے گئے مظاہروں کے الزامات کا اعتراف کرنے کے بعد تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
ان مظاہرین میں کالعدم سیاسی پارٹی ڈی موسِسٹو کے متحرک ممبران جاشوا وانگ، آئیوان لیم اور اگنیس چاؤ شامل ہیں۔ ان سب نوجوانوں نے جن کی عمریں 20 کے عشرے میں ہیں، اپنے وکلا کے کہنے پر ان پر لگائے گئے الزامات کو قبول کیا ہے۔
ان تینوں کو پانچ سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ جب کہ اس مقدمے کی اگلی پیشی دو دسمبر کو ہو گی۔
پیر کو عدالت میں جاتے ہوئے وانگ نے کہا کہ قید و بند کی صعوبتیں، الیکشن پر پابندی یا ان کے خلاف کسی بھی اختیار کا استعمال، انہیں جمہوریت کے لیے متحرک ہونے سےنہیں روک سکتا۔
انہوں نے کہا کہ، “ہم دنیا کو آزادی کی قدر سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم ایسا اپنے پیاروں کی محبت میں کر رہے ہیں، یہاں تک کہ ہم اپنی آزادی کو بھی قربان کر رہے ہیں۔ میں تو اس صورت حال کے لیے بھی تیار ہوں کہ اس کے بعد میرے لیے ایک آزاد شخص کے طور پر رہنے کے امکانات بہت ہی محدود ہو جائیں گے۔”
اِن جمہوریت نواز افرادکا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں مظاہرین کے خلاف عدالتی الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں اور یہ انہیں ہراساں کرنے کی مہم کا حصہ ہیں۔
اس سال جولائی میں وانگ اور دیگر 11 جمہوریت پسند امیدواروں کو ستمبر میں ہانگ کانگ کی مقننہ کے لیئے منعقدہ انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔
یہ اقدام اس وقت کیا گیا تھا جب ابتدائی الیکشن میں یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ چین مخالف امیدوارفتح یاب ہوں گے۔
چین نے اس سال جون میں قومی سلامتی کا ایک قانون پاس کیا تھا، جس کے تحت سیاسی سرگرمیوں اور آزادیِ رائے کو بہت حد تک محدود کر دیا گیا تھا۔ جس پر نئے قانون کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ بعد ازاں حکام نے وانگ اور ان کے ساتھیوں پر ہانگ کانگ میں مظاہرے کرنے کے سلسلے میں مقدمات قائم کئے تھے۔
وانگ نے 2014 سے ہی، جب وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے، جمہوریت کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔
Photo Credit : https://api.time.com/wp-content/uploads/2020/11/joshua-wong-jailed.jpg