پی ڈی ایم کے جلسے: ‘گرفتاریاں ہوئیں تو حالات خراب ہو سکتے ہیں’
پاکستان میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان سیاسی تناؤ اور محاذ آرائی دن بہ دن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور کوئی بھی فریق لچک دکھانے کو تیار نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتِ حال بھی غیر یقینی ہو رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید پر عمران خان کی حکومت کے لیے جوڑ توڑ کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب وفاقی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اپوزیشن کے کھیل سے نظام جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
موجودہ کشیدہ سیاسی صورتِ حال میں تجزیہ کاروں نے سیاسی جماعتوں کو لچک دکھانے کا مشورہ دیا ہے اور کہا ہے کہ مفاہمت کے لیے ایسی شخصیات سامنے آئیں جن کے ذریعے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکے۔
دوسری جانب وزیرِ اعظم عمران خان نے آرمی چیف کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ نواز شریف فوج میں انتشار پھیلانے کے لیے فوج کے سربراہ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل کو بدنام کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی چپقلش میں پاکستان کی فوج مرکزِ نگاہ بنی ہوئی ہے اور دونوں جانب سے کئی مواقع پر فوج کا ذکر کھل کر سامنے آیا ہے۔
‘حالات کشمکش اور تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں’
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ موجودہ سیاسی صورتِ حال پر کہتے ہیں کہ حالات تصادم اور کشمکش کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت دونوں طرف سے جارحانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے بقول مسلم لیگ (ن) عمران خان کے بجائے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے جب کہ اپوزیشن کا اس وقت ٹارگٹ ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ایک صحفے پر نہ رہیں اور یہ اتحاد ٹوٹ جائے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کو ڈیکورم میں رکھنے کے لیے تلخی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس وقت دونوں طرف بہت محدود سوچ ہے۔
حمارہ ہند سے بات کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ حزب اختلاف فی الحال نیب یا دیگر ایجنسیوں کے اقدامات پر توجہ دے رہی ہے اور وہ عوام کی توجہ ان اعمال سے ہٹانا چاہتی ہے جبکہ حکومت عوامی مسائل کی بجائے احتساب پر توجہ دینا چاہتی ہے۔ قائم رہو
ان کے بقول یہ دو بیانیے ہیں جن پر دو بڑوں کی لڑائی جاری ہے۔ اس میں عوام کے مسائل مہنگائی، بے روزگاری پر کوئی کام نہیں کر رہا۔
حالات کہاں جا رہے ہیں؟ اس سوال پر سہیل وڑائچ نے کہا کہ “میں حالات درست سمت میں جاتا نہیں دیکھ رہا لیکن اس کے باوجود پُر امید ہوں کہ بعض ایسے افراد سامنے آئیں گے جو ان حالات میں اپوزیشن اور حکومت کے درمیان حالات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے اور ریاستی ادارے بھی اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق موجودہ صورتِ حال میں اپوزیشن کے جلسوں سے کچھ نہیں ہو رہا لیکن ان جلسوں کو روکنے سے سیاسی درجہ حرارت اور نفرت میں اضافہ ہو گا۔ اُن کے بقول ابھی بہت بڑے جلسے نہیں ہوئے اگر زیادہ بڑے جلسے ہوئے یا مزید گرفتاریاں ہوئیں تو پھر زیادہ حالات خراب ہو سکتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کی رائے ہے کہ کسی بھی جماعت کو جلسوں کی اجازت ہونی چاہیے، ماضی میں بے نظیر بھٹو بھی بڑے جلسے کرتی رہیں لیکن ان جلسوں سے نہ حکومت برطرف ہوئی نہ کچھ اور ہوا۔
کراچی میں پیر کو کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائد کی بے حرمتی کے الزام میں درج ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔ بعدازاں اُنہیں ضمانت پر رہائی تو مل گئی لیکن اس گرفتاری کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
اس بارے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کیپٹن صفدر کی گرفتاری کو اگر ہم فسطائی نہیں کہہ سکتے تو اسے غیر جمہوری ضرور کہہ سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمان کہتی ہیں کہ جمہوری دور میں ہر دیوار پھلانگی جا رہی ہے، ہر لائن کراس کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول سندھ حکومت نے نہ صرف کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کی مذمت کی ہے بلکہ اس واقعے کی تحقیقات اور ایکشن لے رہی ہے۔
موجودہ کشیدہ صورتِ حال میں بعض سیاست دان اس تمام نظام کے خاتمے کے خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں اتوار کو پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اپوزیشن جو کھیل کھیل رہی ہے اس سے نظام تو رخصت ہو سکتا ہے لیکن کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اُن کے بقول عوام اپوزیشن کی سازش ناکام بنا دیں گے۔
شاہ محمود نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ “آپ انتخابات مانگتے ہیں اور فرض کریں کہ آپ بہت مقبول ہوگئے اور لوگ پھر آپ کو آزمانا چاہتے ہیں، تو کیا آپ چل پائیں گے؟ آپ کو کوئی چلنے دے گا؟”
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیے کے بارے میں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کا خیال ہے کہ اُنہیں بین الاقوامی حمایت ملے گی۔
اُن کے بقول نواز شریف انتہا پر پہنچ گئے ہیں جس کے بعد سیاسی عمل میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم ہونے کے بجائے اس میں اضافہ ہو گا۔
یاد رہے کہ حزبِ اختلاف کی گیارہ جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے ملک گیر جلسوں کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب تک گوجرانوالہ اور کراچی میں جلسے ہوئے ہیں اور آئندہ جلسہ کوئٹہ میں شیڈول ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کی صورت میں دونوں اطراف نفرت میں مزید اضافہ ہو گا جو ملکی سیاست کے لیے اچھا نہیں ہے۔
Photo Credit : https://i.dawn.com/primary/2019/04/5cae600d24011.jpg