پشاور: پولیس لائنز کی مسجد میں ریسکیو آپریشن مکمل، 95 ہلاکتوں کی تصدیق
پشاور کے علاقے پولیس لائنز کی مسجد میں پیر کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد شروع ہونے والا ریسکیو آپریشن منگل کی دوپہر مکمل کرلیا گیا ہے۔ نگران وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا نے واقعے میں 95 افراد کی ہلاکت اور 221 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
منگل کو نگراں وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا محمد اعظم خان کے ہمراہ پریس کانفرنس میں آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ کا کہنا تھا کہ ہم ایک یا دو روز کی نہیں بلکہ ایک ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنا شروع کی ہے جس میں ہم مشتبہ عناصر، سہولت کاروں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس لائنز میں روزانہ 1500 سے دو ہزار افراد کی آمد و رفت رہتی تھی۔ ان کے بقول یہ بہت بڑی تحقیقات ہیں اور اس سلسلے میں جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ریسکیو 1122 کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران ملبے سے مجموعی طور پر 24 لاشیں اور نو افراد کو زندہ نکالا گیا۔
معظم جاہ کا کہنا تھا کہ خود کش حملہ آور کی شناخت کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں سی سی ٹی وی فوٹیجز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
اس سے قبل پشاور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی خیبرپختونخوا کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز پشاور 120 سال پہلے 600 جوانوں کے لیے بنائی گئی تھی جہاں دو ہزار سے زائد اہلکار اور آٹھ مختلف محکمے ہیں۔ سی سی پی او اور ایس ایس پی آپریشنز کے دفاتربھی یہیں موجود ہیں جہاں عوام اور سائلین کی ایک بہت بڑی تعداد کا روزانہ آنا جانا ہوتا ہے۔
اس سے قبل پشاور کے لیڈری ریڈنگ اسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق پولیس لائنز دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد میں سے اسپتال میں اب بھی 57 مریض زیرِ علاج ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔
ترجمان کے مطابق دھماکے کے بعد کل 157 زخمی اسپتال لائے گئے تھے۔
جائے وقوع پر بھاری مشینری کی مدد سے ریسکیو آپریشن جاری ہے اور فوج کے دستے بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ریسکیو حکام کے مطابق مسجد کے ملبے تلے اب بھی متعدد افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
نگراں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد اعظم خان کی ہدایت پر پشاور دھماکےکے غم میں صوبے بھر میں منگل کو یومِ سوگ منایا جا رہا ہے اور سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں ہے۔
سی سی پی او پشاور محمد اعجاز خان کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کا سر بھی مل گیا ہے تاہم ریسکیو آپریشن مکمل ہونے کے بعد ہی دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جا سکے گا۔
ان کے بقول “ہوسکتا ہے کہ حملہ آور پہلے سے ہی پولیس لائنز میں موجود ہو۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ حملہ آور کسی سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس لائنز کے اندر داخل ہوا ہو۔”
اس سے قبل سیکیورٹی حکام کا بتانا تھا کہ خود کش حملہ آور مسجد میں نماز کے دوران پہلی صف میں موجود تھا جس نے جماعت شروع ہونے کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے مسجد کی تمام کھڑکیاں اور دورازے ٹوٹ گئے جب کہ چھت کا کچھ حصہ منہدم ہو گیا تھا۔
ٹی ٹی پی کا حملے سے اعلانِ لاتعلقی
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
ٹی ٹی پی ترجمان نے کہا ہے کہ مساجد سمیت دیگر مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا ان کی پالیسی نہیں، اس حملے میں اگر ان کا کوئی رکن ملوث پایا گیا تو تنظیم کی پالیسی کے تحت سزا کا مستحق ہو گا۔
ٹی ٹی پی ترجمان کے بیان سے دس گھنٹے قبل سربکف محمد نامی ٹی ٹی پی کمانڈر نے پشاور خودکش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمانِ کی جانب سے پشاور خودکش حملے سے لاتعلقی کا بیان ایسے وقت سامنے آیا جب افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے پشاور حملے کی مذمت کی تھی اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا تھا۔