بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت بڑوں سے بہتر کیوں ہوتی ہے?

بچوں میں سیکھنے کی صلاحیت بڑوں سے بہتر کیوں ہوتی ہے?

ایک نئی ریسر چ سے ظاہرہوا ہے کہ ایلیمینٹری اسکول کے بچے بالغ افراد کی نسبت کسی مقررہ مدت میں زیادہ چیزیں سیکھ سکتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت بڑوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے ۔

یونائیٹڈ پریس انٹر نیشنل کے مطابق سائنس دان ایک عرصے سے اس بارے میں غور کر رہے تھے کہ بچے کوئی بھی علم یا ہنر بظاہر بڑوں کی نسبت زیادہ تیزی سے کیوں سیکھ لیتےہیں۔ حال ہی میں ایک نئی تحقیق نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد کی ہے اوردماغ کے ایک کیمیاوی مادے” گابا” یا “جی اے بی اے” کی مقدار میں کمی بیشی کو اس فرق سے منسوب کیا ہے ۔

گابا انسانی نروس سسٹم میں موجود ایک امینو ایسڈہے جو ا عصابی خلیوں کے درمیان کیمیاوی رابطہ سازی یا کیمیاوی پیغامات وصول کرنے ، تخلیق کرنے یا بھیجنے کی صلاحیت کو کم کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد میں اس کیمیاوی مادے کی مقدار مستقل رہتی ہے، لیکن بچوں میں اس کی مقدار میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب وہ کوئی بھی نیا کا م یا نیا ہنر سیکھ رہے ہوتے ہیں۔جب کہ بڑوں میں سیکھنے کے دوران اس مادے کی مقدار میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔

جریدے” کرنٹ بایالوجی” میں شائع اس تحقیق کے مطابق بچوں میں بصری تربیت کے دوران امینو ایسڈ (GABA Gamma-Aminobutyric Acid) کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہو جاتا ہے جوان کی توجہ دوسری تمام چیزوں سے ہٹا دیتا ہےجس کے نتیجے میں وہ اس نئی چیز پر توجہ مرکوز کر کر سکتے ہیں اوراسے جلدی سیکھ سکتے ہیں۔

اس ریسرچ ٹیم کے مرکزی رکن براؤن یونیورسٹی کے تاکیو وتنابے نے ایک جریدے کو بتایا کہ اکثر یہ فرض کیا جاتا تھا کہ بچے بالغ افراد کی نسبت کوئی بھی کام زیادہ مستعدی سے سیکھ لیتے ہیں۔ اگرچہ اس مفروضے کی تائید میں کوئی خاطر خواہ سائنسی شواہد دستیاب نہیں ہیں لیکن اگر یہ درست ہو تو بھی یہ واضح نہیں ہے کہ بچوں میں سیکھنے کی کار کردگی کو بہتر بنانےمیں اعصابی نظام کس طرح کام کرتا ہے ۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ان کی ٹیم نے ایلیمینٹری اسکول کی عمر کے13 بچے اور 14 بالغ افراد کو ایک تجربے میں شامل کیا جس میں انہیں کچھ نئی چیزیں سیکھنے کو دیں جس دوران ان کے طرز عمل کا جائزہ لیا گیا جب کہ ان کے اعصابی سسٹم کے جائزے کے لیے نیورو امیجنگ کی جدید ترین تکنیک کا استعمال کیا گیا۔

محققین کو معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کو بصری طور پر سیکھنے کے دوران بچوں کے دماغ کے بصری حصے میں جو کسی بھی بصری معلومات پر کارروائی کرتا ہے تو، گا با ایسڈ کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہو گیا۔

کرنٹ بایالوجی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے ان نتائج کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کی کہ کسی بھی نئی چیز کو سیکھنے کے دوران بچوں میں گابا کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے جو ان مخصوص عصبی خلیوں کا رابطہ باقی اعصابی خلیوں سے عارضی طور پر روک دیتا ہے جس کے نتیجے میں انہیں مقررہ کام پر توجہ مرکو ز کرنے میں مدد ملتی ہےاور وہ اس کام کو تیزی سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بہتری کو گابا ایسڈ کی مقدار میں فرق سے منسوب کیا ہے ۔

ان کا کہنا ہےکہ اس ایسڈ کی مقدارکا اضافہ تربیت کے ختم ہونے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے

اس ریسر چ ٹیم کے ایک رکن اور اس وقت جرمنی کی ریجنز برگ یونیورسٹی سے وابستہ سباسٹیئن فرینک کا کہنا ہے کہ بعد میں کیے جانے والے دوسرے تجربات سے بھی ان نتائج کی تائید ہوئی کہ بچے بڑوں کی نسبت سیکھنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اور اس لیے ہمارے نتائج یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ گابا ایسڈ بچوں میں سیکھنے کی کارکردگی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے اساتذہ اور والدین کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ وہ بچوں کو نئے ہنر سیکھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں خواہ ان کا تعلق ریاضی کے حقائق سیکھنے سے ہو یا پیراکی سیکھنے سے ۔

تاکیو ودنابے کہتے ہیں کہ اگرچہ بچوں کے دماغ پوری طرح سے پختہ نہیں ہوئے ہوتے اور ان کی سمجھ بوجھ اور رویے عمومی طور پربالغ افراد جیسے بہتر نہیں ہوتے اس لیے ان شعبوں میں ان کی کار کردگی بڑوں سے بہتر نہیں ہوتی ۔ لیکن اس کے برعکس کچھ معاملات مثلاً بصری علم یا بصری ہنر سیکھنے میں ان کی صلاحیت بڑوں سے بہتر ہوتی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ دماغ کے مختلف حصوں اور ان کی کارکردگی کے درمیان پختگی کی شرح میں فرق کا پتہ چلانے کے لیے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے ۔ اس مزید ریسرچ میں دوسری قسم کے سیکھنے کے عمل مثلاًپڑھائی اور لکھائی میں گابا کے اثرات کا جائزہ بھی شامل کیا جانا چاہئے ۔

تصویر کریڈٹ : https://img.huffingtonpost.com/asset/5cd373d02100003100d3b738.jpeg?ops=1778_1000